Tuesday, 2 April 2013

Saeinyan Zat Adhori Hai

سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے، سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن، سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گذر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت

سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہے، بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے، راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں تنہا شاموں میں، چن گئے ہیں بامو میں
چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں

سائیاں ویرانی کے صدقے، اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے، لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں، اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا
                                                               فرحت عبّاس شاہ

Thursday, 21 March 2013

Faraq Parta Hai


ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کوئی دانشمند مضمون نگاری کے لئے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا - اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا تھا

ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا تو اسے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا -وہ متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے - یہ جاننے کے لئے وہ تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا -وہ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے - نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا - وہ ساحل پر جھکتا ، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا

دانش مند اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں پوچھا ، " صبح بہ خیر ! یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ "نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر دانش مند کی جانب دیکھا اور بولا

" ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں "

میں سمجھا نہیں - تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو ؟ سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں - میں نے انھیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی

لیکن نوجوان ! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں ممکن نہیں کہ تمھاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے "نوجوان نے شائستگی سے دانش مند کی بات سنی ، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ھوئے بولا

" لیکن اس کے لیے تو فرق پڑ گیا"

Monday, 18 March 2013

Service Rescue 1122



 سروس 1122 سے مزاق
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چرواہا بکریا ں چرا رہا تھا۔اچانک اُس کے ذہن میں شرارت سوجھی۔اُس نے واویلا شروع کر دیا کہ بھیڑیا آ گیا ، بھیڑیاآگیا۔ لوگ لاٹھیاں لئے مدد کے لئے بھاگے ۔جب وہ چراہے کے پاس پہنچے تووہاں کوئی بھیڑیا نہ تھا۔ انہو ں نے چرواہے سے پوچھا کدھر ہے بھیڑیا۔ وہ ہنسنے لگا کہ میں نے تو مزاق کیا ہے۔دوسری دفعہ اُس نے پھر وہی کیا۔ لوگ اُسے بُرا بھلا کہتے ہوئے پھرواپس لوٹ گئے۔ تیسری مرتبہ واقعی بھیڑئیے نے چرواہے کی بھیڑوں پر حملہ کر دیا۔ چرواہے نے بہت واویلا کیا لیکن کوئی بھی اُس کی مدد کو نہ پہنچا۔یہ کہانی بچوں کوسکول میں ماضی میں بھی پڑھائی جاتی تھی اور حال میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اِس کہانی کے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس طرح کا مزاق نہ کرے اور اگر کرے گا تو اس کے سنگین نتائج بھگتے گا۔موجودہ دور میں بالکل اس سے ملتی جلتی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔سروس 1122 کو فون کر کے آہوں اور سسکیوں کے درمیان بتا یا جاتا ہے کہ میں فلاں جگہ پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا ہوں اور بے یارومددگار پڑا ہوں۔ جب سروس 1122والے بھاگم بھاگ وہاں پہنچتے ہیں تو وہاں کوئی بلی کا بچہ میاؤں میاؤں کر رہا ہوتا ہے۔فون پر اطلاع دینے والا کسی اوٹ سے یہ منظر دیکھ دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔کوئی منچلا سروس 1122کے دفتر فون کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ پر مردہ پڑا ہے۔نوجوان جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھتے ہیں ،جیسے تیسے ٹریفک عبور کرتے ہیں اور فوری موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تووہاں کوئی جہاز اپنے روٹین کی نیند سو رہا ہوتا ہے اور جونہی نوجوان اُس کے قریب جاتے ہیں وہ او ں آں کرتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھتا ہے ۔ہاتھ پھیلا کر منتیں کرنے لگتا ہے پچاس روپے تو دیتے جائیں میں نے پوڈر پینا ہے۔سروس 1122 کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں قسم قسم کی فرضی کالز
سے سابقہ پڑتا ہے۔سروس 1122والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی فون کالوں نے ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔اس طرح کی صورتحال سے گاڑیوں کا پیٹرول الگ ضائع ہوتا ہے اور نوجوانوں کی توانائی الگ ضائع ہوتی ہے۔اس دوران کسی حقیقی ضرورت مند کو ضرورت ہو تو اُس کی حق تلفی ہو جاتی ہے۔

میرا ایک دوست کینیڈا رہتا ہے۔اب تو اُسے مدت ہو گئی ہے پاکستان نہیں آیا۔ وہ بہت پہلے پاکستان آیا تھا۔وہ وہاں کی باتیں سناتے ہوئے بتا رہا تھا کہ ایک دن پکوڑے کھانے کو جی چاہا۔اِدھر اُدھر سے بمشکل پکوڑوں کا سامان اکٹھا کیا۔کڑائی چولھے پر چڑھائی اور افرادِ خانہ بے صبری سے پکوڑوں کے تیار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب ابلتے ہوئے تیل میں بیسن ڈالا گیا توپوری بلڈنگ میں ہلچل مچ گئی۔ لپٹیں دور دور تک پھیلنے لگیں۔ساری بلڈنگ میں تھڑ تھلی مچ گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔چوتھے فلور کے مکینوں نے وہاں کی پولیس کو اطلاع کر دی کہ پانچویں فلور پر کسی فلیٹ میں شائد آگ لگ گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی۔ پولیس نے لفٹ لگائی اور پانچویں منزل کی ہمارے گھر کی کھڑکی کو کھٹکھٹایا۔ہم ڈر گئے کہ یہ جِن کا بچہ کہاں پہنچ گیا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے۔ہم نے ڈرتے ڈرتے کھڑکی کھول دی۔وہ اندر آ گیا۔اُس نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم نے اُسے ٹوٹی پھوٹی کینیڈین زبان میں سمجھایا کہ یہ پکوڑے تلے جا رہے ہیں ۔اُس نے حیرانی سے پوچھا "وَٹ پکوڑا؟؟" ۔ہم نے پکوڑے کی وضاحت کی کہ یہ خوابہ ہے اور کہا کہ ذرا یہ خوابہ کھا ؤ تمہارے دونوں طبق روشن نہ ہو جائیں تو نام بدل دینا۔وہ بیٹھ کر پکوڑے کھانے لگا۔وہ کھاتا بھی جاتا اور تیز مرچوں کی وجہ سے اوئی اوئی بھی کرتا جاتا تھا۔ کہاں کینیڈین معدے بیچارے اور کہاں ایشین معدے۔ یہ تو ایشین معدے ہی ہیں جو پتھر ہضم لکڑ ہضم قسم کے سٹائل پر مینوفیکچرکئے گئے ہیں ۔ خیر وہ اپنے انجام سے بے خبر پکوڑے کھاتا چلا گیا۔ وہ سی سی بھی کرتا جا رہا تھا اور پکوڑے بھی کھاتا جا رہا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعداُس نے گھبراہٹ میں ٹائلٹ ٹائلٹ پکارا۔بس پھر ٹائلٹ کی طرف اُس کی آمد جامد شروع ہو گئی۔دیر تک اُس کی یہ لفٹ رائٹ پریڈ جاری رہی۔جونہی اُسے کچھ افاقہ ہواوہ تھینک یو تھینک یوں کہتا اور کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا یہ جا وہ جا وہاں سے رفوچکر ہو گیا اور ہم اطمینان سے پکوڑے کھانے لگے۔اُس کی بات سُن کر کینیڈین پولیس پر ڈھیروں پیار آنے لگا۔دیر تک خدا سے گڑ گڑا کر دعا مانگتا رہا کہ اے اللہ ہمیں بھی ایسی ہی پولیس عطا فرماجو ہماری دوست ہو۔جو دکھ درد میں ہماری سانجھی ہو۔ جو حاجت مند کے دُکھ درد کو دور کرکے تسکین محسوس کرے ۔شاید یہ میری دعا کی مقبولیت تھی کہ سروس 1122معرضِ وجود میں آئی ۔اس کی خدمات کی باتیں سن سن کر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر سا ہونے لگا۔وہ احساس کہ اگر ہم جانور ہیں تو ہماری پونچھ کدھر ہے آہستہ آہستہ دور ہونے لگا کہ ہاں ہم واقعی اشرف المخلوقات ہیں اور ہماری ایک کال پر سروس
1122 والے بھاگے چلے آتے ہیں۔لیکن اپنوں کی جانوروں جیسے حرکتیں دیکھ دیکھ کر ایک دفعہ پھر پونچھ تلاش کرنے لگا ہوں۔۔بہت سوچا ہے کہ آخر یہ مریض کس ڈاکٹر سے شفا پا سکتے ہیں۔بہت غوروخوض کے بعدذہن اِس نقطے پر پہنچا ہے کہ یہ مسجدوں کے خطیبوں کے مریض ہیں اور وہیں سے ہی شفا پا سکتے ہیں۔اگر مسجدوں کے خطیب 1122 والوں کو جعلی فون کال کرکے بلانے والوں کوایک جھلک دوزخ کی دکھا دیں اور وہاں کے سانپ اوربچھو ؤں کا ذرا تفصیل سے ذکر کر دیں اور اگر ہو سکے تو دو چار گوری چٹی حوروں
کا بھی تذکرہ کردیں جو جعلی کالیں نہ کرنے والے کو مشروبات پلائیں گی تو نہ صرف سروس 1122 کے لئے بہت سے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی بلکہ بہت سے حق داروں کو صحیح وقت پر حق ملنے میں پیچیدگیاں بھی دور ہو جائیں۔

Wednesday, 13 March 2013

Wasif Khayal Zahir o Batin


آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص
آپ کے اند ر کا انسان ہے!
اسی نے عبادت کرنی ہے اور اسی نے بغاوت!
وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا!

اسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا اور سزا کا مستحق بنانا ہے
فیصلہ آپ کے ہاتھـ میں ہے!
آپکا باطن ہی آپکا صحیح دوست ہے اور وہی آپ کا بدترین دشمن!
آپ خود ہی اپنے لئے دشوار ی سفر ہو اور خود ہی شادابی منزل !
باطن محفوظ ہو گیا تو ظاہر بھی محفوظ ہو گا۔

حضرت واصف علی واصف

Pencil Saaz Ki Naseehat

ایک ماہر پنسل ساز نے ایک بہت خوبصورت پنسل بنائی ۔۔۔۔۔ پنسل کو پیک کرنے سے پہلے اس نے اپنی خوبصورت تخلیق کو ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔!!!
میں نے اپنے کمالِ فن کی انتہا کرتے ہوئے تجھے ایک بے مثال شکل و صورت دی ہے لیکن تم اس سے بھی خوبصورت بن سکتی ہو اگر تم میری پانچ باتیں غور سے سُن لو ۔۔۔۔۔ ان باتوں پر عمل کرکے تم دنیا کی بہترین پنسل بن سکتی ہو ۔۔۔۔۔

پہلی بات ۔۔۔۔۔!!!
تم بہت عمدہ اور عظیم کارنامے سر انجام دے سکتی ہو ، بشرطیکہ تم خود کو کسی ماہر اور کامل ہاتھ کے حوالے کر دو ۔۔۔۔۔

دوسری بات ۔۔۔۔۔!!!
تمہیں بار بار تراشے جانے کے تکلیف دہ عمل سے گذرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔ لیکن ایک بہترین اور کارآمد پنسل بننے کے لیے اس اذیت کو حوصلے سے برداشت کرنا تمہارے لیے ضروری ہو گا ۔۔۔۔۔

تیسری بات ۔۔۔۔۔!!!
تم اُن غلطیوں کو درست کرنے کی اہل ہو جو تم سے سرزد ہو سکتی ہیں ۔۔۔۔۔ درستی کرنے سے کبھی بھی ہچکچانا مت ۔۔۔۔۔

چوتھی بات ۔۔۔۔۔!!!
تمہارا سب سے اہم حصہ میں نے تمہارے اندر رکھا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی نگہداشت کرنا ۔۔۔۔۔

پانچویں بات ۔۔۔۔۔!!!
تمہاری لکھنے کی صلاحیت تمہارے آخری سرے تک ہے ۔۔۔۔۔ حالات خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں ، تمہیں آخر دم تک لکھنا جاری رکھنا ہے ، اور جس سطح پر بھی تمہیں استعمال کیا جائے تم نے اپنا نشان وہاں چھوڑنا ہے ۔۔۔۔۔

پنسل نے ان تمام باتوں کو دھیان سے سنا ۔۔۔۔۔ انہیں گرہ سے باندھ کر رکھنے کا عزم کیا ۔۔۔۔۔ اور انجانی منزلوں کی جانب عازمِ سفر ہوئی

اب اگر ہم خود کو اس پنسل کی جگہ رکھ لیں اور ان ہی پانچ باتوں کو ہمیشہ یاد رکھیں تو ہم بلا شبہ اشرف المخلوقات ، مسجودِ ملائک یعنی بہترین انسان بن سکتے ہیں کیونکہ ہمارے خالق نے بڑے فخر سے ہمیں اپنی بہتریں تخلیق قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔

پہلی بات ۔۔۔۔۔!!!
ہم فوزو فلاح کی رفعتوں کو چُھو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذات کو کُلی طور پر خالق و مالکِ کائنات اور اُس کے مبعوث کردہ ہادیءِ برحق کے ہاتھ میں دے دیں ۔۔۔۔۔

دوسری بات ۔۔۔۔۔!!!
ہمیں بار بار تراشے جانے کے اذیت ناک مراحل سے گذرنا ہوگا ، جو مختلف آزمائشوں اور مسائل کی صورت میں ہمارے سامنے آئیں گے ۔۔۔۔۔ ہمیں ان سب کو ہمت ، حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔

تیسری بات ۔۔۔۔۔!!!
ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور اس میں کسی قسم کی جھجھک یا ہچکچاہٹ نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔

چوتھی بات ۔۔۔۔۔!!!
ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے اندر ہے ، ہمارا قلب ِ سلیم ۔۔۔۔۔ ہمیں اسے تمام کثافتوں اور آلائشوں سے بچانا ہے ۔۔۔۔۔

پانچویں بات ۔۔۔۔۔!!!
ہم زندگی کی جس بھی سٹیج پر ہوں ، ہمیں اپنے نقوشِ پا چھوڑنا ہیں ، حالات خواہ کچھ بھی ہوں ہمیں آخر دم تک سر گرمِ عمل رہنا ہے ۔۔۔۔۔

یاد رکھیئے کہ ہم میں سے ہر فرد ایک خصوصی اور منفرد شخصیت کا حامل ہے ۔۔۔۔۔
آپ کو جس خصوصی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ صرف اور صرف آپ ہی پورا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
اس یقین کے ساتھ زندگی بسر کریں کہ اس وسیع کائنات کو آپ کی ضرورت ہے ، اسی لیے خالقِ کائنات نے آپ کو تخلیق فرمایا ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ تو کوئی شے بھی فضول اور بے مقصد تخلیق نہیں فرماتا ۔۔۔۔۔

Saturday, 9 March 2013

Kabhi Aye Naujwan Muslim


کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا

تمدن آفریں، خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحراۓ عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کے منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

غرض میں کیا کہوں تجھـ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بانو جہاں آرا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھـ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے یہ نظارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا