Friday 1 March 2013

Fikar o Shaoor

انسان کا عمل اس کی سوچ کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ سوچ ہی انسانی کردار میں ڈھلتی ہے۔ انسانی سوچ، فکر یا شعور میں بہتری انسان کے عمل کو بہتر بناتی ہے۔ اس کے افعال و اعمال میں بہتری کردار کی بہتری ہے۔ گویا فکری یا شعوری ارتقاء کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ کردار کی بہتری سے ہے۔ خالقِ کائنات نے شعور کو جامد شکل میں پیدا نہیں فرمایا، ورنہ دنیا آج بھی اپنے تخلیق کی ابتدائی دور میں ٹھہری ہوتی۔ شعور کا ادراک، اس کی اہمیت کو راسخ کرنا اور اس کی افزائش و نمو ایک پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جس میں ظاہری اقدامات کو ہی اصل کام سمجھا جاتا ہے، وہاں شعور اور فکر کی بات کرنا غیر ضروری اور باعثِ حیرت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی بھی اعلٰی عملی کام کے پچھے ایک باقائدہ فکر اور شعوری ادراک کارفرما ہوتا ہے۔
اس کی بہترین مثال انقلابِ اسلام کا ظہور ہے۔ جو کہ مکمل طور پر شعور کی سطح پر رونما ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی فکری بنیادیں دیگر مزاہب یا دنیاوی نظاموں سے زیادہ گہری اور مظبوط ہیں۔ گویا شعور کی سطح پرکیا گیا عمل ہمیشہ پائیدار اور دیر پا نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
متوازن سوچ اپنا کر چلنا،چیزوں کا مثبت رخ دیکھنا، دوسروں کی خیر خواہی چاہنا، امن اور محبت جیسی روایات کو لے کر چلنا، دوسروں کی صلاحیتوں کا اعطراف اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ، تخلیقی اور تعمیری سوچ کی حوصلہ افزائی کرنا، اظہارِ خیال کی آزادی، خود احتسابی جیسی روایات ہی الشعور کے بنیادی اغراض و مقاصد ہیں۔

No comments:

Post a Comment