Monday 18 March 2013

Service Rescue 1122



 سروس 1122 سے مزاق
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چرواہا بکریا ں چرا رہا تھا۔اچانک اُس کے ذہن میں شرارت سوجھی۔اُس نے واویلا شروع کر دیا کہ بھیڑیا آ گیا ، بھیڑیاآگیا۔ لوگ لاٹھیاں لئے مدد کے لئے بھاگے ۔جب وہ چراہے کے پاس پہنچے تووہاں کوئی بھیڑیا نہ تھا۔ انہو ں نے چرواہے سے پوچھا کدھر ہے بھیڑیا۔ وہ ہنسنے لگا کہ میں نے تو مزاق کیا ہے۔دوسری دفعہ اُس نے پھر وہی کیا۔ لوگ اُسے بُرا بھلا کہتے ہوئے پھرواپس لوٹ گئے۔ تیسری مرتبہ واقعی بھیڑئیے نے چرواہے کی بھیڑوں پر حملہ کر دیا۔ چرواہے نے بہت واویلا کیا لیکن کوئی بھی اُس کی مدد کو نہ پہنچا۔یہ کہانی بچوں کوسکول میں ماضی میں بھی پڑھائی جاتی تھی اور حال میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اِس کہانی کے پڑھانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس طرح کا مزاق نہ کرے اور اگر کرے گا تو اس کے سنگین نتائج بھگتے گا۔موجودہ دور میں بالکل اس سے ملتی جلتی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔سروس 1122 کو فون کر کے آہوں اور سسکیوں کے درمیان بتا یا جاتا ہے کہ میں فلاں جگہ پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا ہوں اور بے یارومددگار پڑا ہوں۔ جب سروس 1122والے بھاگم بھاگ وہاں پہنچتے ہیں تو وہاں کوئی بلی کا بچہ میاؤں میاؤں کر رہا ہوتا ہے۔فون پر اطلاع دینے والا کسی اوٹ سے یہ منظر دیکھ دیکھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔کوئی منچلا سروس 1122کے دفتر فون کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ پر مردہ پڑا ہے۔نوجوان جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھتے ہیں ،جیسے تیسے ٹریفک عبور کرتے ہیں اور فوری موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تووہاں کوئی جہاز اپنے روٹین کی نیند سو رہا ہوتا ہے اور جونہی نوجوان اُس کے قریب جاتے ہیں وہ او ں آں کرتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھتا ہے ۔ہاتھ پھیلا کر منتیں کرنے لگتا ہے پچاس روپے تو دیتے جائیں میں نے پوڈر پینا ہے۔سروس 1122 کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں قسم قسم کی فرضی کالز
سے سابقہ پڑتا ہے۔سروس 1122والوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جعلی فون کالوں نے ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔اس طرح کی صورتحال سے گاڑیوں کا پیٹرول الگ ضائع ہوتا ہے اور نوجوانوں کی توانائی الگ ضائع ہوتی ہے۔اس دوران کسی حقیقی ضرورت مند کو ضرورت ہو تو اُس کی حق تلفی ہو جاتی ہے۔

میرا ایک دوست کینیڈا رہتا ہے۔اب تو اُسے مدت ہو گئی ہے پاکستان نہیں آیا۔ وہ بہت پہلے پاکستان آیا تھا۔وہ وہاں کی باتیں سناتے ہوئے بتا رہا تھا کہ ایک دن پکوڑے کھانے کو جی چاہا۔اِدھر اُدھر سے بمشکل پکوڑوں کا سامان اکٹھا کیا۔کڑائی چولھے پر چڑھائی اور افرادِ خانہ بے صبری سے پکوڑوں کے تیار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جب ابلتے ہوئے تیل میں بیسن ڈالا گیا توپوری بلڈنگ میں ہلچل مچ گئی۔ لپٹیں دور دور تک پھیلنے لگیں۔ساری بلڈنگ میں تھڑ تھلی مچ گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔چوتھے فلور کے مکینوں نے وہاں کی پولیس کو اطلاع کر دی کہ پانچویں فلور پر کسی فلیٹ میں شائد آگ لگ گئی ہے۔ تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی۔ پولیس نے لفٹ لگائی اور پانچویں منزل کی ہمارے گھر کی کھڑکی کو کھٹکھٹایا۔ہم ڈر گئے کہ یہ جِن کا بچہ کہاں پہنچ گیا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے۔ہم نے ڈرتے ڈرتے کھڑکی کھول دی۔وہ اندر آ گیا۔اُس نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم نے اُسے ٹوٹی پھوٹی کینیڈین زبان میں سمجھایا کہ یہ پکوڑے تلے جا رہے ہیں ۔اُس نے حیرانی سے پوچھا "وَٹ پکوڑا؟؟" ۔ہم نے پکوڑے کی وضاحت کی کہ یہ خوابہ ہے اور کہا کہ ذرا یہ خوابہ کھا ؤ تمہارے دونوں طبق روشن نہ ہو جائیں تو نام بدل دینا۔وہ بیٹھ کر پکوڑے کھانے لگا۔وہ کھاتا بھی جاتا اور تیز مرچوں کی وجہ سے اوئی اوئی بھی کرتا جاتا تھا۔ کہاں کینیڈین معدے بیچارے اور کہاں ایشین معدے۔ یہ تو ایشین معدے ہی ہیں جو پتھر ہضم لکڑ ہضم قسم کے سٹائل پر مینوفیکچرکئے گئے ہیں ۔ خیر وہ اپنے انجام سے بے خبر پکوڑے کھاتا چلا گیا۔ وہ سی سی بھی کرتا جا رہا تھا اور پکوڑے بھی کھاتا جا رہا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعداُس نے گھبراہٹ میں ٹائلٹ ٹائلٹ پکارا۔بس پھر ٹائلٹ کی طرف اُس کی آمد جامد شروع ہو گئی۔دیر تک اُس کی یہ لفٹ رائٹ پریڈ جاری رہی۔جونہی اُسے کچھ افاقہ ہواوہ تھینک یو تھینک یوں کہتا اور کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا یہ جا وہ جا وہاں سے رفوچکر ہو گیا اور ہم اطمینان سے پکوڑے کھانے لگے۔اُس کی بات سُن کر کینیڈین پولیس پر ڈھیروں پیار آنے لگا۔دیر تک خدا سے گڑ گڑا کر دعا مانگتا رہا کہ اے اللہ ہمیں بھی ایسی ہی پولیس عطا فرماجو ہماری دوست ہو۔جو دکھ درد میں ہماری سانجھی ہو۔ جو حاجت مند کے دُکھ درد کو دور کرکے تسکین محسوس کرے ۔شاید یہ میری دعا کی مقبولیت تھی کہ سروس 1122معرضِ وجود میں آئی ۔اس کی خدمات کی باتیں سن سن کر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر سا ہونے لگا۔وہ احساس کہ اگر ہم جانور ہیں تو ہماری پونچھ کدھر ہے آہستہ آہستہ دور ہونے لگا کہ ہاں ہم واقعی اشرف المخلوقات ہیں اور ہماری ایک کال پر سروس
1122 والے بھاگے چلے آتے ہیں۔لیکن اپنوں کی جانوروں جیسے حرکتیں دیکھ دیکھ کر ایک دفعہ پھر پونچھ تلاش کرنے لگا ہوں۔۔بہت سوچا ہے کہ آخر یہ مریض کس ڈاکٹر سے شفا پا سکتے ہیں۔بہت غوروخوض کے بعدذہن اِس نقطے پر پہنچا ہے کہ یہ مسجدوں کے خطیبوں کے مریض ہیں اور وہیں سے ہی شفا پا سکتے ہیں۔اگر مسجدوں کے خطیب 1122 والوں کو جعلی فون کال کرکے بلانے والوں کوایک جھلک دوزخ کی دکھا دیں اور وہاں کے سانپ اوربچھو ؤں کا ذرا تفصیل سے ذکر کر دیں اور اگر ہو سکے تو دو چار گوری چٹی حوروں
کا بھی تذکرہ کردیں جو جعلی کالیں نہ کرنے والے کو مشروبات پلائیں گی تو نہ صرف سروس 1122 کے لئے بہت سے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی بلکہ بہت سے حق داروں کو صحیح وقت پر حق ملنے میں پیچیدگیاں بھی دور ہو جائیں۔

No comments:

Post a Comment