Saturday 9 March 2013

Kabhi Aye Naujwan Muslim


کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا

تمدن آفریں، خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحراۓ عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کے منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

غرض میں کیا کہوں تجھـ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بانو جہاں آرا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھـ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے یہ نظارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
 

No comments:

Post a Comment